اے دور نگر کے بنجارے
اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے
یہ بارش، کیچڑ، سرد ہوا اور راہ کٹھن انجانی ہے
آ محفل چپ چپ بیٹھی ہے، آ محفل کا جی شاد کریں
وہ لوگ کہ تیرے عاشق ہیں کے روز سے تجھ کو یاد کریں
وہ ٹھور ٹھکانے ڈھونڈ چکے، وہ منزل منزل چھُو آئے
اے دور نگر کے بنجارے گر چھوڑ کے ایسا جا نا تھا
کیوں چاہ کی راہ دکھانی تھی کیوں پیار کا ہاتھ بڑھانا تھا
ہے دنیا کے ہنگاموں میں رنگینی بھی رعنائی بھی
ہر چیز یہاں کی پیاری ہے محرومی بھی رسوائی بھی
سب لوگ یہاں پر قسمت کے بے طور تھپیڑے سنتے ہیں
پر جیتے ہیں اور جینے کی آس سے چمٹتے رہتے ہیں
ا ور تُو تو ایک کھلاڑی تھا کیوں کھیل ہی سے منہ موڑ لیا
کیوں جان کی بازی ہار گیا، کیوں عمر کا رشتہ توڑ لیا
گو جانے کے مشتاق یہاں سے ہم جیسے لاکھ بچارے ہوں
وہ لوگ ہی رخصت ہوتے ہیں جو لوگ کہ سب کو پیارے ہوں
ہر سال رتوں کی گردش سے جب بیس دسمبر آئے گی
یہ اشک چھما چھم برسیں گے، یہ آہ گھٹا بن جائے گی
تم عرش کے ایک فرشتے تھے بس فرش کی چوکھٹ چوم گئے
تم تیس برس تک دنیا میں معصوم رہے، معصوم گئے
ہم یاد کی روشن شمعوں سے اس جی میں اجالا رکھیں گے
اور سینے میں آبادی کا سامان نرالا رکھیں گے
تم اجنبی اجنبی راہوں میں جب تھک جاؤ، اک کام کرو
اس دل میں آن قیام کرو، اس سینے میں بسرام کرو
اس جگ کی رات اندھیری میں اک تارا تھا، وہ ڈوب گیا
اور وعدے ساتھ نبھانے کے سب بھول بھلا کر خوب گیا
یہ انشا، ہاروں، زید بکر، شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
سب دوست ہمارے اچھے ہیں پر کون ہے اس سا کوئی نہیں
کیوں نازک نازک سینوں ہر تم غم کا توڑ پہاڑ چلے
پھر دیکھ زمیں پر کیچڑ ہے پھر دیکھ فلک پر پانی ہر
اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر ٹھانی ہے
ابن انشا
نوحہ بر مرگِ محمد اختر
No comments:
Post a Comment