فصلِ گل فصلِ خزاں جو بھی ہو خوش دل رہیے
کوئی موسم ہو ہر اک رنگ میں کامل رہیے
موج و گرداب و تلاطم کا تقاضا ہے کچھ اور
رہیے محتاط تو بس تا لب ساحل رہیے
دیکھتے رہیے کہ ہو جائے نہ کم شان جنوں
ان کی نظروں کے سوا سب کی نگاہیں اٹھیں
محفل یار میں بھی زینت محفل رہیے
دل پہ ہر حال میں ہے صحبت نا جنس حرام
حیف صد حیف کہ ناجنسوں میں شامل رہیے
داغ سینے کا دہکتا رہے جلتا رہے دل
رات باقی ہے جہاں تک مہ کامل رہیے
جانیے دولت کونین کو بھی جنس حقیر
اور در یار پہ اک بوسے کے سائل رہیے
عاشقی شیوہ رندان بلاکش ہے میاں
وجہ شائستگی خنجر قاتل رہیے
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment