Thursday, 19 January 2017

مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا

مِرا خط ہے جہاں یارو! وہ رشکِ حور، لے جانا
کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو
تو اس کے سامنے اک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اسکے رنگ پر زردی
تو یارو! تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا
اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے ڈھونڈ کر اِک خانۂ زنبور لے جانا
رقیبِ رُو سیہ کے حال کا گر ماجرا پوچھے
تو اس کے سامنے جنگل سے اک لنگور لے جانا
نظؔیر اک دن خوشی سے یار نے ہنس کر کہا مجھ کو
کہ تُو بھی ایک بوسہ ہم سے اے رنجور! لے جانا

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment