عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانتا ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائِیں، لیکن
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس کی دُزدیدہ نگہ نے مِرے دِل میں چھپ کر
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانتا ہے
بام پہ چڑھ کے تماشے کو ہمیں، حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانتا ہے
اس کی فرقت میں ہمیں چرخِ ستمگار نے، آہ
یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانتا ہے
حکم چُپی کا ہُوا شب، تو سحر تک ہم نے
رتجگا ایسا منایا ہے کہ جی جانتا ہے
تلوے سہلانے میں گو اونگھ کے جھک جھک تو پڑے
پر مزا بھی، وہ اڑایا ہے کہ جی جانتا ہے
رنج ملنے کے بہت دل نے سہے، لیکن نظیرؔ
یار بھی ایسا ہی پایا ہے کہ جی جانتا ہے
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment