Thursday, 19 January 2017

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانتا ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائِیں، لیکن 
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس مزیداری سے کھایا ہے کہ جی جانتا ہے
اس کی دُزدیدہ نگہ نے مِرے دِل میں چھپ کر
تیر اس ڈھب سے لگایا ہے کہ جی جانتا ہے
بام پہ چڑھ کے تماشے کو ہمیں، حسن اپنا
اس تماشے سے دکھایا ہے کہ جی جانتا ہے
اس کی فرقت میں ہمیں چرخِ ستمگار نے، آہ 
یہ رلایا، یہ رلایا ہے کہ جی جانتا ہے
حکم چُپی کا ہُوا شب، تو سحر تک ہم نے
رتجگا ایسا منایا ہے کہ جی جانتا ہے
تلوے سہلانے میں گو اونگھ کے جھک جھک تو پڑے
پر مزا بھی، وہ اڑایا ہے کہ جی جانتا ہے
رنج ملنے کے بہت دل نے سہے، لیکن نظیرؔ
یار بھی ایسا ہی پایا ہے کہ جی جانتا ہے

نظیر اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment