پھر آن کے منت سے ملا، ہم سے وہ لالا
المنتہ للہ تقدس و تعالٰے
کر قتل، مجھے تُو نے ہمیشہ کو جلایا
ظالم! تجھے جیتا رکھے اللہ تعالٰے
دیکھ اب تو مجھے ہر کوئی کہتا ہے یہی، آہ
مر مر”، مجھے کہتا تھا سو مرتا ہوں میں یارو“
اب لاؤ، کہاں ہے وہ مِرا کوسنے والا
قاصد! تُو مِرا نام تو لیجو نہ، لیکن
کہنا، کوئی مرتا ہے تِرا چاہنے والا
کیا خاک اڑانے کو چلیں، آہ چمن میں
نہ یار، نہ ساقی، نہ صراحی، نہ پیالا
جیسا کہ وہ ہو مجھ سے خفا روٹھ چلا تھا
اللہ نے کیوں جب ہی مجھے مار نہ ڈالا
شاید وہی بن ٹھن کے چلا ہے کہیں گھر سے
ہے یہ تو اسی چاند سی صورت کا اجالا
لے لے کے بَلائیں مجھے یہ کہتی ہیں آنکھیں
”صدقے تِرے، پِھر ایک نظر مجھ کو دِکھا لا“
صحرا میں مِرے حال پہ، کوئی بھی نہ رویا
گر پھوٹ کے رویا، تو مِرے پاؤں کا چھالا
نظیر اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment