Tuesday, 17 January 2017

ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے

ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
منہ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منہ لگاوے
ان دو ہی صورتوں میں شکل اب نباہ کی ہے
یا صبر ہم کو آوے یا رحم اس کو آوے
اس مہ بغیر آنکھوں میں سب سیہ ہے
دیکھیں تو عشق کیا کیا ہم کو سیمیں دکھاوے
کچھ زخم کھل چکے ہیں کچھ داغ کھل رہے ہیں
اب کے بہار دیکھیں کیا کیا شگوفے لاوے
جوں لیلیٰ اور مجنوں تا نقش کچھ رہے یاں
اس کی مِری بھی صورت یک جا کوئی بناوے
یہ طرح دار لڑکے دیں بیٹھنے تب اس کو
جب جی سے اپنے کوئی ہر طرح دل اٹھاوے
ہم جس زمیں پہ آئے واں آسماں یہی تھا
یا رب جو کوئی جاوے تو کس طرف کو جاوے
شب سنتے حال میرا لیتا ہے موند آنکھیں
مچلے سے میں کہوں کیا سوتا ہو تو جگاوے
طاقت کا محو تب ہے جب ڈھب نہیں بتوں سے
چھوڑے نماز واجب گر میؔر وقت پاوے

میر تقی میر

No comments:

Post a Comment