ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
منہ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منہ لگاوے
ان دو ہی صورتوں میں شکل اب نباہ کی ہے
یا صبر ہم کو آوے یا رحم اس کو آوے
اس مہ بغیر آنکھوں میں سب سیہ ہے
کچھ زخم کھل چکے ہیں کچھ داغ کھل رہے ہیں
اب کے بہار دیکھیں کیا کیا شگوفے لاوے
جوں لیلیٰ اور مجنوں تا نقش کچھ رہے یاں
اس کی مِری بھی صورت یک جا کوئی بناوے
یہ طرح دار لڑکے دیں بیٹھنے تب اس کو
جب جی سے اپنے کوئی ہر طرح دل اٹھاوے
ہم جس زمیں پہ آئے واں آسماں یہی تھا
یا رب جو کوئی جاوے تو کس طرف کو جاوے
شب سنتے حال میرا لیتا ہے موند آنکھیں
مچلے سے میں کہوں کیا سوتا ہو تو جگاوے
طاقت کا محو تب ہے جب ڈھب نہیں بتوں سے
چھوڑے نماز واجب گر میؔر وقت پاوے
میر تقی میر
No comments:
Post a Comment