شہر میں ہم سے کچھ آشفتہ دِلاں اور بھی ہیں
ساحلِ بحر پہ قدموں کے نشاں اور بھی ہیں
ریت کے تودے چمک اٹھتے ہیں جب ظلمت میں
ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں اور بھی ہیں
کیسے منظر تھے کہ شیشوں کی طرح ٹوٹ گئے
بستیاں دل کی بھی سنسان پڑی ہیں کب سے
یہ کھنڈر ہی نہیں سایوں کے مکاں اور بھی ہیں
شب کے سناٹے میں چٹانوں کو دیکھو اے زیبؔ
تم سے بے گانۂ فریاد و فغاں اور بھی ہیں
زیب غوری
No comments:
Post a Comment