دن تِری یاد میں ڈھل جاتا ہے آنسو کی طرح
رات تڑپاتی ہے اک نشتر پہلو کی طرح
جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تنہا تنہا
دل کا عالم ہے کسی سروِ لبِ جُو کی طرح
ہائے وحشت کوئی منزل ہو ٹھہرتا ہی نہیں
رہ گئی گھٹ کے مِرے دل میں تمنا تیری
ایک پرواز شکستہ پر و بازو کی طرح
مجلس شیخ میں کل ذکر تھا جس کا اے دوست
ہو گی جنت بھی کوئی شے تِرے پہلو کی طرح
زیؔب اب زد میں جو آ جائے وہ دل ہو کہ نگاہ
اس کی رفتار ہے چلتے ہوئے جادو کی طرح
زیب غوری
No comments:
Post a Comment