Tuesday 17 January 2017

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو، آؤں میں
دل سے ستم کی بے سروکاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
وہ نام ہوں کہ جس پہ ندامت بھی اب نہیں
وہ کام ہیں کہ اپنی جدائی کماؤں میں
کیونکر ہو اپنے خواب کی آنکھوں میں واپسی
کس طور اپنے دل کے زمانوں میں جاؤں میں
اک رنگ سی کمان ہو خوشبو سا ایک تیر
مرہم سی واردات ہو اور زخم کھاؤں میں
شکوا سا اک دریچہ ہو نشہ سا اک سکوت
ہو شام اک شراب سی لڑکھراؤں میں
پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کون سی بستی سے لاؤں میں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment