تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو، آؤں میں
دل سے ستم کی بے سروکاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
وہ نام ہوں کہ جس پہ ندامت بھی اب نہیں
کیونکر ہو اپنے خواب کی آنکھوں میں واپسی
کس طور اپنے دل کے زمانوں میں جاؤں میں
اک رنگ سی کمان ہو خوشبو سا ایک تیر
مرہم سی واردات ہو اور زخم کھاؤں میں
شکوا سا اک دریچہ ہو نشہ سا اک سکوت
ہو شام اک شراب سی لڑکھراؤں میں
پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کون سی بستی سے لاؤں میں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment