آگ محفل میں غلاموں کی لگا دیں اے دوست
دل کی بجھتی ہوئی شمعوں کو فروزاں کر دیں
گائیں ٹوٹے ہوئے بربط پہ ترانے دل کے
بزم کو اپنی نواؤں سے غزل خواں کر دیں
کعبہ و دیر و کلیسا کی بجھا دیں قندیل
توڑ دیں وہم نے پہنائی تھیں جو زنجیریں
آ گیا وقت کہ اب وَا درِ زِنداں کر دیں
ڈال دیں وقت کی افسردہ نگاہوں میں نگاہ
عہدِ پارینہ کو اک خوابِ پریشاں کر دیں
رنگِ خوں بھر کے بنائیں وہ نئی تصویریں
کاوشِ مانی و بہزاد کو حیراں کر دیں
چھین لیں ہاتھ بڑھا کر مہ و پرویں سے چمک
ہند کی خاک کے ذروں کو درخشاں کر دیں
مسندِ عیش سے شاہوں کو اٹھا دیں چل کر
”مورِ بے مایہ کو ہم دوشِ سلیماں کر دیں“
کب تلک راہ کے کانٹوں سے بچائیں گے قدم
ان کو تھوڑا سا لہو دے کے گلستاں کر دیں
اب نظر پھیر لیں ایران کے گلزاروں سے
نگہِ شوق کو کشمیر بداماں کر دیں
دے کے احساس نیا ہند کے مہ پاروں کو
حسنِ یوسف کو چراغِ تہِ داماں کر دیں
داستاں وامق و عذرا کی بھلا دیں دل سے
شوق کی جنسِ گراں مایہ کو ارزاں کر دیں
عام ہو غالب و اقبال کی رعنائیِ فکر
بے زبانوں کو زباں دے کے زباں داں کر دیں
کھول دیں سب کے لیے قفلِ درِ مۓ خانہ
حضرتِ جوش کو سرِ حلقۂ رنداں کر دیں
علی سردار جعفری
No comments:
Post a Comment