وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
بے زبانی ترجمانِ شوقِ بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیشِ یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
مِٹ رہی ہیں دل سے یادیں روزگارِ حسن کی
التفاتِ یار تھا اک خوابِ آغازِ وفا
سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں
تیری بے صبری ہے حسؔرت خامکاری کی دلیل
گریۂ عُشاق میں ہوتی ہیں تاثیریں کہیں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment