Tuesday, 17 January 2017

گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا

گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا
تم سے بھی دریا پار تو اب نئیں ہونے کا
ہم تو نیندیں بھی تاوان میں دے آئے
خوابوں کا بیوپار تو اب نئیں ہونے کا
ممکن ہے وہ بڑے تپاک سے ملے مگر
سینہ ٹھنڈا ٹھار تو اب نئیں ہونے کا
تم جو مِری گردن میں بانہیں ڈالتے تھے
ویسا گلے کا ہار تو اب نئیں ہونے کا
شکر ہے شہر میں میرا ایک بھی دوست نہیں
مجھ پر چھپ کے وار تو اب نئیں ہونے کا
وہ مِری آنکھ کا ہر آنسو پی جاتی تھی
ماں جیسا غمخوار تو اب نئیں ہونے کا
حسن رضاؔ، تمثیل وہی ہے، پر ہم سے
پہلے سا کردار تو اب نئیں ہونے کا
یوں تو شہر میں سب کچھ ہے پر حسن رضا
جوہرؔ سا دلدار تو اب نئیں ہونے کا

حسن عباس رضا 

No comments:

Post a Comment