گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا
تم سے بھی دریا پار تو اب نئیں ہونے کا
ہم تو نیندیں بھی تاوان میں دے آئے
خوابوں کا بیوپار تو اب نئیں ہونے کا
ممکن ہے وہ بڑے تپاک سے ملے مگر
تم جو مِری گردن میں بانہیں ڈالتے تھے
ویسا گلے کا ہار تو اب نئیں ہونے کا
شکر ہے شہر میں میرا ایک بھی دوست نہیں
مجھ پر چھپ کے وار تو اب نئیں ہونے کا
وہ مِری آنکھ کا ہر آنسو پی جاتی تھی
ماں جیسا غمخوار تو اب نئیں ہونے کا
حسن رضاؔ، تمثیل وہی ہے، پر ہم سے
پہلے سا کردار تو اب نئیں ہونے کا
یوں تو شہر میں سب کچھ ہے پر حسن رضا
جوہرؔ سا دلدار تو اب نئیں ہونے کا
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment