Thursday 19 January 2017

یہیں پہ رہنے دے صیاد آشیانہ مرا

یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

یہ باغ تیرا ہے، یہ پھول تیرے ہیں، چُن لے
گلوں کے ریشوں سے دامِ حسیں کوئی بُن لے
ابھی بچھا نہ اسے، ایک التجا سُن لے
مِرے بغیر اجڑ جائے گا ٹھکانہ مِرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

یہ سچ ہے، تیرے چمن سے چرایا ہے میں نے
یہ ایک تنکا یہیں سے اٹھایا ہے میں نے
کہ جس پہ اپنا بسیرا بسایا ہے میں نے
تِرے چمن میں تھا حق اس قدر بھی کیا نہ مِرا 
یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

یہیں پہ بیٹھ کے میں چپکے چپکے رو لوں گا
کلی کلی مجھے چھیڑے گی، میں نہ بولوں گا
نہ گاؤں گا، میں زباں تک نہ اپنی کھولوں گا
تِری فضاؤں پہ گر بار ہے ترانہ مِرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

تجھے ہے یاد، یہاں ایک پنچھی رہتا تھا
وہ جس کے نغموں کی رہ میں زمانہ بہتا تھا
یہاں سے جانے لگا وہ تو رو کے کہتا تھا
رفیق! جاتا ہوں، پھر جانے کب ہو آنا مِرا
تِرے سپرد یہ چھوٹا سا آشیانہ مِرا

اندھیرے میں کوئی پتہ جو سرسراتا ہے
تو اب بھی راتوں کو دل میرا چونک جاتا ہے
سمجھتا ہوں وہ مرا ہم سرود آتا ہے
ہے جس کی ایک امانت یہ آشیانہ مِرا
یہ ٹوٹی ٹہنی یہ برباد سا ٹھکانہ مِرا

کبھی تو آئے گا وہ مژدۂ امید لیے
اک اور جنت گُل پوش کی کلید لیے
اک اور گلشنِ آزاد کی نوید لیے
بلا کے نام بہ اندازِ محرمانہ مِرا
وہ آ کے سر پر اٹھا لے گا آشیانہ مِرا

وہ دیکھ، شاخیں ہلی ہیں، وہ آ رہا ہو گا
حسین کلیاں کھلی ہیں، وہ آ رہا ہو گا
رُتیں رُتوں سے ملی ہیں، وہ آ رہا ہو گا
یہیں، ادھر ہی، وہ سُکھ سنگتی پرانا مِرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا​

مجید امجد

No comments:

Post a Comment