Tuesday 17 January 2017

ان کے بغیر جی تو رہے ہیں قتیل ہم

ان کے بغیر جی تو رہے ہیں قتیل ہم
کر لیں نہ بے مزا کہیں عمرِ طویل ہم
جذبے کمر خمیدہ ہیں سانسوں کے بوجھ سے
اس پر بھی کر رہے ہیں سفر کی سبیل ہم
آئیں گے اپنے بعد بھی کچھ راہروانِ شوق
رستے میں گاڑ دو کہ بنیں سنگِ میل ہم
دم گھٹ رہا تھا شہرِ ندامت میں دوستو
پھاند آئے احتیاط کی اونچی فصیل ہم
در پر لگا ہے قفل تو روزن ہی کھول دے
تازہ ہواؤں میں تو رہیں خود کفیل ہم
سات آسماں ہیں راستہ روکے ہوئے قتیلؔ
آخر کہاں سے لائیں پرِ جبرئیل ہم

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment