ان کے بغیر جی تو رہے ہیں قتیل ہم
کر لیں نہ بے مزا کہیں عمرِ طویل ہم
جذبے کمر خمیدہ ہیں سانسوں کے بوجھ سے
اس پر بھی کر رہے ہیں سفر کی سبیل ہم
آئیں گے اپنے بعد بھی کچھ راہروانِ شوق
دم گھٹ رہا تھا شہرِ ندامت میں دوستو
پھاند آئے احتیاط کی اونچی فصیل ہم
در پر لگا ہے قفل تو روزن ہی کھول دے
تازہ ہواؤں میں تو رہیں خود کفیل ہم
سات آسماں ہیں راستہ روکے ہوئے قتیلؔ
آخر کہاں سے لائیں پرِ جبرئیل ہم
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment