Wednesday, 10 February 2016

اب تو کبھی کھڑکی کبھی در کاٹ رہا ہے

اب تو کبھی کھڑکی کبھی در کاٹ رہا ہے
موجود نہیں تم ہو، تو گھر کاٹ رہا ہے
ڈالا تھا قفس میں مجھے، یہ کم تھا بتاؤ
صیاد مِرے کس لیے پر کاٹ رہا ہے
ہے شامِ الم کی نہ شبِ غم کی شکایت
اے دوست! مجھے وقتِ سحر کاٹ رہا ہے
بے مہرئ قسمت، نہ ستائش کا گِلہ کچھ
اوروں پہ تِرا حسنِ نظر کاٹ رہا ہے
جاتے ہوئے رکتی ہیں بلندی پہ نگاہیں
یہ کون مِرا تارِ نظر کاٹ رہا ہے
ہے عزم اگر پختہ تو پائے گا کنارا
جو بحرِ تلاطم میں سفر کاٹ رہا ہے
لگتا ہے کہ ہے یاسؔ گناہوں پہ پیشماں
جو عمر کو بادیدۂ تر کاٹ رہا ہے

یاس چاند پوری

No comments:

Post a Comment