وہ جو رستے میں مل گیا تھا مجھے
میں یہ سمجھا کہ ڈھونڈتا تھا مجھے
ایسے تکتا تھا اجنبی کی طرح
جیسے مدت سے جانتا تھا مجھے
'اس نے پوچھا 'کسے بھٹکنا ہے
میں زمانے کی کس لیے سنتا
بولنا بھی تو آ گیا تھا مجھے
جب بھی روشن ہوا اندھیرے میں
سب نے مل کر بجھا دیا تھا مجھے
ایک دریا تھا تیری چاہت کا
جو سمندر بنا رہا تھا مجھے
کرچیاں بن گیا وہ آنکھوں میں
ایک ہی شخص آئینہ تھا مجھے
میں نے سب کچھ سنا رضیؔ، لیکن
اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا مجھے
رضی الدین رضی
No comments:
Post a Comment