Tuesday 9 February 2016

ہوس کیا آرزو کیا مدعا کیا

ہوس کیا، آرزو کیا، مدعا کیا
فریبِ عشق کے سامان ہیں کیا کیا
کروں وحشت میں عرضِ مدعا کیا
مجھے کہنا تھا کیا کچھ، کہہ دیا کیا
پرانا چاہنے والا ہوں، مجھ سے
تکلف سازئ ناز و ادا کیا
انہیں لازم ہے دشمن کی خبر لیں
ہم ان کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
حریفِ چشمِ عاشق ہو تو جانوں
پسِ پردہ ہے یہ شرم و حیا کیا
نہیں تاثیرؔ اچھا، میں نے مانا
مگر ایسا بھی ہے آخر برا کیا

ایم ڈی تاثیر
محمد دین تاثیر

No comments:

Post a Comment