Saturday, 27 February 2016

نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے

نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
سحر ہوئی تو خراشیں چنیں بچھونے سے
صدف لیے ہوئے ابھری ہے لاش بھی میری
بچا رہے تھے مجھے لوگ غرق ہونے سے
ہنر ہے تجھ میں تو قائل بھی کر زمانے کو
چمک اٹھے گی نہ شکل آئینے کو دھونے سے
لپٹ رہی ہیں مِرے راستوں سے روشنیاں
نظر میں لوگ ہیں کچھ سانولے سلونے سے
لگا کے زخم بہانے چلا ہے اب آنسو
رکا ہے خون کہِیں پٹیاں بھگونے سے
ہمِیں نہ ہوں کہِیں دیکھو تو غور سے لوگو
ہیں طفلِ وقت کے ہاتھوں میں کچھ کھلونے سے
مِرے دکھوں سے بھی کچھ فائدہ اٹھا دنیا
زمیں کی پیاس بجھے بادلوں کے رونے سے
لہو رگوں میں مظفرؔ چھڑائے مہتابی
ملے ہے کیا اسے چنگاریاں چبھونے سے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment