یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے
پھر اس زمین پہ مِرا آسمان ٹوٹتا ہے
خطا تو اور زمینیں بھی کرتی رہتی ہیں
تو صرف ہم پہ ہی کیوں آسمان ٹوٹتا ہے
پھر ایک دوسری دیوار درمیاں آئی
ہوائیں تیز ہیں پھر بھی سفر تو کرنا ہے
تو ٹوٹ جائے اگر بادبان ٹوٹتا ہے
بتانے والا ہی ہوتا ہے جب کوئی تعبیر
ہمارا خواب اسی درمیان ٹوٹتا ہے
منظور ہاشمی
No comments:
Post a Comment