Sunday, 14 February 2016

یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے

یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے
پھر اس زمین پہ مِرا آسمان ٹوٹتا ہے
خطا تو اور زمینیں بھی کرتی رہتی ہیں
تو صرف ہم پہ ہی کیوں آسمان ٹوٹتا ہے
پھر ایک دوسری دیوار درمیاں آئی
پھر ایک سلسلۂ جسم و جان ٹوٹتا ہے
ہوائیں تیز ہیں پھر بھی سفر تو کرنا ہے
تو ٹوٹ جائے اگر بادبان ٹوٹتا ہے
بتانے والا ہی ہوتا ہے جب کوئی تعبیر
ہمارا خواب اسی درمیان ٹوٹتا ہے

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment