Sunday, 7 February 2016

زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں

زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں
پھر کسی زلف سیہ تاب کا سایا ڈھونڈیں
علم و دانش کے اجالے میں پریشاں ہے دماغ
آؤ! معصوم جہالت کا اندھیرا ڈھونڈیں
اس امنڈتے ہوئے چہروں کے سمندر میں کوئی
جو شناسا لگے، آؤ! وہ چہرا ڈھونڈیں
خاک کر ڈالے نہ صدیوں کی کہیں پیاس ہمیں
اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں ہی میں دریا ڈھونڈیں
کیفؔ گزری تھی جہاں اپنے لڑکپن کی بہار
آؤ! آنگن میں اسی پیڑ کا سایا ڈھونڈیں

کیف عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment