زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں
پھر کسی زلف سیہ تاب کا سایا ڈھونڈیں
علم و دانش کے اجالے میں پریشاں ہے دماغ
آؤ! معصوم جہالت کا اندھیرا ڈھونڈیں
اس امنڈتے ہوئے چہروں کے سمندر میں کوئی
خاک کر ڈالے نہ صدیوں کی کہیں پیاس ہمیں
اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں ہی میں دریا ڈھونڈیں
کیفؔ گزری تھی جہاں اپنے لڑکپن کی بہار
آؤ! آنگن میں اسی پیڑ کا سایا ڈھونڈیں
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment