Saturday, 27 February 2016

جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں

جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں
اُس پہ مصیبت یہ ہے ہمدم! صبر کی دل کو تاب نہیں
پوچھنے والے تُو نے پوچھا لطف کرم، احسان کیا
لب پر آئے حرف تمنا، عشق کے یہ آداب نہیں
عشق و جنوں کچھ فرداً فرداً کم نہ تھے اور جب سازش کی
ایسے بن میں لا کر مارا کوسوں جس میں آب نہیں
عشق اِدھر سرشارِ وفا ہے، حسن اُدھر سرمستِ ادا
بے ہوشی کا اک عالم ہے جس کا کوئی حساب نہیں
شکوے کر یا طعنے دے یا اور کوئی تدبیر نکال
منت سے اٹھ جائے جو اے دل ایسا ان کا حجاب نہیں
کتنے ایسے رِند بھی تھے جو بزم سے تشنہ کام گئے
شکر ہے اپنے جام میں ساقی دُرد تو ہے جو شراب نہیں
عالم و فاضل جو بھی دیکھے گویا جہلِ مرکب تھے
دل سا معلم اور فطرت سی کوئی جہاں میں کتاب نہیں
اہلِ دل سے پوچھو اثرؔ کیا لذت ہے ناکامی میں
ہاتھ اٹھا بیٹھے مطلب سے، مطلب گو نایاب نہیں

اثر لکھنوی

No comments:

Post a Comment