جھونکا ادھر نہ آئے نسیمِ بہار کا
نازک بہت ہے پھول چراغِ مزار کا
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہُوا وہی روگ انتظار کا
شاخوں سے برگِ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
ہر گل سے لالہ زار میں یہ پوچھتا ہوں میں
تُو ہی پتہ بتا دے دلِ داغدار کا
اس پیار سے فشار دیا گورِ تنگ نے
یاد آ گیا مزا مجھے آغوشِ یار کا
ہلتی نہیں ہوا سے چمن میں یہ ڈالیاں
منہ چومتے ہیں پھول عروسِ بہار کا
اٹھتا ہے نزع میں وہ سرہانے سے اے امیرؔ
مٹتا ہے آسرا دلِ امیدوار کا
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment