Monday, 29 February 2016

بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے

بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے
شاخ پر پھول کھلا ہو جیسے
شرم سے راہ سمٹنے لگی ہے
تُو مِرے ساتھ چلا ہو جیسے
اشک گرنے پہ میں رویا ہوں بہت
مِری آنکھوں میں پلا ہو جیسے
معتبر آج چراغوں کی ضیا
یاد میں دل بھی جلا ہو جیسے
آنکھ حیرت سے پھٹی جاتی ہے
سانس سینے میں رکا ہو جیسے
وقتِ رخصت کہ قیامت کوئی
پیڑ، مٹی سے جدا ہو جیسے
بس یہی سوچ کے جانے دیا تھا
وہ مِرے نام لکھا ہو جیسے
خود کو دیکھا ہے بکھرتے قیصرؔ
دل میں طوفان اٹھا ہو جیسے

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment