بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے
شاخ پر پھول کھلا ہو جیسے
شرم سے راہ سمٹنے لگی ہے
تُو مِرے ساتھ چلا ہو جیسے
اشک گرنے پہ میں رویا ہوں بہت
معتبر آج چراغوں کی ضیا
یاد میں دل بھی جلا ہو جیسے
آنکھ حیرت سے پھٹی جاتی ہے
سانس سینے میں رکا ہو جیسے
وقتِ رخصت کہ قیامت کوئی
پیڑ، مٹی سے جدا ہو جیسے
بس یہی سوچ کے جانے دیا تھا
وہ مِرے نام لکھا ہو جیسے
خود کو دیکھا ہے بکھرتے قیصرؔ
دل میں طوفان اٹھا ہو جیسے
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment