ہاتھ دنیا سے دھو کے دیکھتے ہیں
سب سے بیگانے ہو کے دیکھتے ہیں
یونہی موجوں کو کچھ قرار آئے
اپنی کشتی ڈبو کے دیکھتے ہیں
تجھ کو پا کر تو کچھ نہ ملا ہمیں
یہ بھی اک شاخِ شادمانی ہے
غیر کے غم میں رو کے دیکھتے ہیں
ایک بارِ گراں سہی ہستی
اور کچھ روز ڈھو کے دیکھتے ہیں
شاید اپنا نصیب بھی جاگا
اس کے پہلو میں سو کے دیکھتے ہیں
جانے ہم کس دیار میں ہیں حفیظؔ
ہر قدم پر جو دھوکے دیکھتے ہیں
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment