تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے
نہ جانے روح کو کتنا عذاب دینا ہے
اس اک نگاہ نے اک پَل میں کیا نہیں پوچھا
کئی سوال ہیں، جن کا جواب دینا ہے
گزر گیا ہے یہ دن تو کسی طرح، لیکن
ستمگروں کو یہی بات بھول جاتی ہے
کہ ایک روز تو خوں کا حساب دینا ہے
اسی نے مہر لگا دی ہے سب کے ہونٹوں پر
وہ اک سوال کہ جس کا جواب دینا ہے
نظام ہائے کہن آزما کے دیکھ لیے
زمیں کو اور ہی اب انقلاب دینا ہے
لہو لہو ہے ہر اک یاد کا بدن باقیؔ
گئے دنوں کا ابد تک حساب دینا ہے
باقی احمد پوری
No comments:
Post a Comment