جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہا ہے
یوں کوئی مِرا قلب و جگر کاٹ رہا ہے
پرواز کا فن جس کو سکھایا کبھی میں نے
وہ آج مِری سمتِ سفر کاٹ رہا ہے
دنیا تو سرائے ہے مگر وہ بھی ہے فانی
انصاف ملے کیسے عدالت سے بتاؤ
منصف ہی تو قانون کا سر کاٹ رہا ہے
پتھر بھی اٹھاتا ہے وہ شیشے کے مکاں پر
تیشے سے بھی پتھر کا جگر کاٹ رہا ہے
سائے سے بھی محروم وہ ہو جائے گا کہہ دو
کیوں دھوپ کی شدت میں شجر کاٹ رہا ہے
کیوں میرا بھلا کام کھٹکنے لگا اس کو
جو آج مِرا دستِ ہنر کاٹ رہا ہے
کیا کیجیے اس دور میں غیروں کی شکایت
اپنا تو جگر، لختِ جگر کاٹ رہا ہے
باقی نہ رہا کوئی بھی رشتے کا تقدس
اب باپ کا سر یاسؔ! پسر کاٹ رہا ہے
یاس چاند پوری
No comments:
Post a Comment