Thursday 25 February 2016

ترے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی

تِرے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی
کہ اب دوبارہ محبت تو ہو نہیں سکتی
یہاں سنا ہے ہواؤں کی حکمرانی ہے
یہاں چراغوں کی عزت تو ہو نہیں سکتی
ذرا سی تلخ کلامی سے ہم نہ بدلیں گے
پرانی شے کی مرمت تو ہو نہیں سکتی
تمہارے عشق میں رگ رگ یہ کاٹ ڈالی ہے
اب اس سے بڑھ کے اذیت تو ہو نہیں سکتی
جو چاہتا تھا وہ خود کو بنا نہیں پایا
سو دوسروں کو نصیحت تو ہو نہیں سکتی
اگر ہے عشق تو صحرا میں آپ آ جائیں
حضور شہر میں وحشت تو ہو نہیں سکتی
بس ایک راہ بچی ہے کہ تم پہ مر جائیں
کہ دوسری کوئی صورت تو ہو نہیں سکتی
تجھے بھی ہم سے محبت ہے، برملا کہہ دو
کہ یارایسے مروت تو ہو نہیں سکتی
ہم اپنی آنکھوں کی کھاتے نہیں قسم، لیکن
ہمارے لب پہ شکایت تو ہو نہیں سکتی
کچھ اس لیے بھی وفا تجھ سے چاہتے نہیں ہیں
ہمارے جذبوں کی قیمت تو ہو نہیں سکتی
وہ جان بوجھ کے کرتے ہیں اب اداکاری
کہ بھول جانے کی عادت تو ہو نہیں سکتی
سمجھ سکو تو سمجھ لو ہماری آنکھوں کو
اب اور ہم سے وضاحت تو ہو نہیں سکتی
تمہارے عشق میں دنیا کو کر لیا دشمن
سو اب کسی سے شکایت تو ہو نہیں سکتی
نہ جانے غیب سے آئے گا کب خیال کوئی
غزل کے ہونے میں عجلت تو ہو نہیں سکتی
حدیثِ درد سناؤ نہ پتھروں کو زبیرؔ
کہ آئینوں سے رعایت تو ہو نہیں سکتی

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment