آستینوں میں نہ خنجر رکھیے
دل میں جو ہے وہی لب پر رکھیے
ہونٹ جلتے ہیں تو جلنے دیجیے
اپنی آنکھوں میں سمندر رکھیے
اپنی پرچھائیں بھی ڈس لیتی ہے
کس کو معلوم ہے کل کیا ہو گا
آج کی بات نہ کل پر رکھیے
جیب خالی ہے تو غم مت کیجیے
دل بہر حال تونگر رکھیے
جو مہ و سال کا پابند نہ ہو
کوئی ایسا بھی کیلنڈر رکھیے
ہر نظر سنگ بداماں ہے یہاں
آبگینوں کو چھپا کر رکھیے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment