Sunday, 7 February 2016

آستینوں میں نہ خنجر رکھئے

آستینوں میں نہ خنجر رکھیے
دل میں جو ہے وہی لب پر رکھیے
ہونٹ جلتے ہیں تو جلنے دیجیے
اپنی آنکھوں میں سمندر رکھیے
اپنی پرچھائیں بھی ڈس لیتی ہے
ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھیے
کس کو معلوم ہے کل کیا ہو گا
آج کی بات نہ کل پر رکھیے
جیب خالی ہے تو غم مت کیجیے
دل بہر حال تونگر رکھیے
جو مہ و سال کا پابند نہ ہو
کوئی ایسا بھی کیلنڈر رکھیے
ہر نظر سنگ بداماں ہے یہاں
آبگینوں کو چھپا کر رکھیے

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment