Friday, 5 February 2016

اک خواب نا تمام کو تعبیر دے گیا

اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا 
یہ کون مجھ کو ریشمی زنجیر دے گیا
ٹکڑے ہوئے ہیں رات کی ناگن کے دیکھیے
دستِ صبح میں کرنوں کی شمشیر دے گیا
وہ نرم نرم لہجہ میں اس کا پکارنا
کتنی میری دعاؤں کو تاثیر دے گیا
اس کا خیال روشنی کا اک مینار ہے
بے نور منظروں کو جو تنویر دے گیا
پت جھڑ کے زرد پتوں پہ لکھا ہے میرا نام 
پھولوں کا دیوتا مجھے تحریر دے گیا

شبنم رحمٰن

No comments:

Post a Comment