اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا
یہ کون مجھ کو ریشمی زنجیر دے گیا
ٹکڑے ہوئے ہیں رات کی ناگن کے دیکھیے
دستِ صبح میں کرنوں کی شمشیر دے گیا
وہ نرم نرم لہجہ میں اس کا پکارنا
اس کا خیال روشنی کا اک مینار ہے
بے نور منظروں کو جو تنویر دے گیا
پت جھڑ کے زرد پتوں پہ لکھا ہے میرا نام
پھولوں کا دیوتا مجھے تحریر دے گیا
شبنم رحمٰن
No comments:
Post a Comment