لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے
گیسوؤں سے ساون کی بدلیاں خریدیں گے
کہکشاں اتاریں گے مانگ سے ستاروں کی
تیرے ہر تبسم کی بجلیاں خریدیں گے
بے اثر ہوئے گھنگھرو، اب وہ بیچ کر پائل
نرم نرم ہونٹوں کی نوچ لیں گے پنکھڑیاں
پھول جیسے گالوں کی سرخیاں خریدیں گے
خوش لباس لڑکی سے یوں بضد ہے اک بچہ
ہم تمہارے آنچل کی تتلیاں خریدیں گے
یہ بھی ایک خوبی ہے آج کے جوانوں میں
دلہنوں سے دھن لے کر کوٹھیاں خریدیں گے
اب بھی کچھ شریفوں کو روز فکر رہتی ہیں
آج کیسے بچوں کی روٹیاں خریدیں گے
بھر نہ پائے گی غربت ہاتھ اپنی بہنوں کے
لوگ صرف خوابوں میں چوڑیاں خریدیں گے
لکھتے لکھتے کیوں شاہدؔ بھیگ جاتا ہے کاغذ
چلیے لکھنے سے پہلے دستیاں خریدیں گے
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment