Saturday, 6 February 2016

لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے

لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے
گیسوؤں سے ساون کی بدلیاں خریدیں گے
کہکشاں اتاریں گے مانگ سے ستاروں کی
تیرے ہر تبسم کی بجلیاں خریدیں گے 
بے اثر ہوئے گھنگھرو، اب وہ بیچ کر پائل
عاشقوں کے پیروں کی بیڑیاں خریدیں گے
نرم نرم ہونٹوں کی نوچ لیں گے پنکھڑیاں
پھول جیسے گالوں کی سرخیاں خریدیں گے
خوش لباس لڑکی سے یوں بضد ہے اک بچہ
ہم تمہارے آنچل کی تتلیاں خریدیں گے
یہ بھی ایک خوبی ہے آج کے جوانوں میں
دلہنوں سے دھن لے کر کوٹھیاں خریدیں گے
اب بھی کچھ شریفوں کو روز فکر رہتی ہیں
آج کیسے بچوں کی روٹیاں خریدیں گے
بھر نہ پائے گی غربت ہاتھ اپنی بہنوں کے
لوگ صرف خوابوں میں چوڑیاں خریدیں گے
لکھتے لکھتے کیوں شاہدؔ بھیگ جاتا ہے کاغذ
چلیے لکھنے سے پہلے دستیاں خریدیں گے

شاہد کبیر 

No comments:

Post a Comment