بچھڑنے پر مجھے اکسا رہی ہے
وہ اب کتنا بدلتی جا رہی ہے
کسی کی یاد میری چشمِ تر کو
مسلسل رت جگے پہنا رہی ہے
سنبھالوں کیسے اس ریشم بدن کو
محبت میں خسارے کر رہا ہوں
مجھے تاریخ پھر دہرا رہی ہے
میری تصویر اس کے سامنے ہے
وہ لڑکی کس قدر شرما رہی ہے
ہوائے سرد دل کے ساحلوں پر
محبت کے ترانے گا رہی ہے
بچایا تھا جسے مشکل سے میں نے
وہی تصویر اب دھندلا رہی ہے
اعجاز توکل
No comments:
Post a Comment