Saturday 6 February 2016

کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے

کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
کیا جلوۂ معنی ہے دکھا کیوں نہیں دیتے
دیوارِ حجابات گِرا کیوں نہیں دیتے
تم کو تو بڑا ناز مسیحائی تھا یارو
بیمار ہے ہر شخص دوا کیوں نہیں دیتے
کس دشت میں گم ہو گئے احباب ہمارے
ہم کان لگائے ہیں صدا کیوں نہیں دیتے 
کم ظرف ہیں جو پی کے بہکتے ہیں سرِ بزم 
محفل سے انہیں آپ اٹھا کیوں نہیں دیتے
کیوں ہاتھ میں لرزا ہے تمہیں خوف ہے کس کا
ہم حرفِ غلط ہیں تو مِٹا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ ابھی عشق میں گستاخ بہت ہیں
 آدابِ وفا ان کو سِکھا کیوں نہیں دیتے
نغمہ وہی نغمہ ہے اتر جائے جو دل میں
دنیا کو حفیظؔ آپ بتا کیوں نہیں دیتے

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment