کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
کیا جلوۂ معنی ہے دکھا کیوں نہیں دیتے
دیوارِ حجابات گِرا کیوں نہیں دیتے
تم کو تو بڑا ناز مسیحائی تھا یارو
کس دشت میں گم ہو گئے احباب ہمارے
ہم کان لگائے ہیں صدا کیوں نہیں دیتے
کم ظرف ہیں جو پی کے بہکتے ہیں سرِ بزم
محفل سے انہیں آپ اٹھا کیوں نہیں دیتے
کیوں ہاتھ میں لرزا ہے تمہیں خوف ہے کس کا
ہم حرفِ غلط ہیں تو مِٹا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ ابھی عشق میں گستاخ بہت ہیں
آدابِ وفا ان کو سِکھا کیوں نہیں دیتے
نغمہ وہی نغمہ ہے اتر جائے جو دل میں
دنیا کو حفیظؔ آپ بتا کیوں نہیں دیتے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment