احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے
ہم ایسے تونگرہیں جو نوکر نہیں رکھتے
سرگرم سفر رہتے ہیں بستر نہیں رکھتے
کیا گھر کا پتہ دیں جو کوئی گھر نہیں رکھتے
لڑتے ہیں کڑی دھوپ سے دیوانے تمہارے
سر پر کوئی مانگی ہوئی چادر نہیں رکھتے
فطرت نے جو بخشا ہے وہی حُسن بہت ہے
پھول اپنے بدن پر کوئی زیور نہیں رکھتے
سچ بولتے ہیں اور ہر اک شخص کے منہ پر
آئینہ صفت لوگ کوئی ڈر نہیں رکھتے
کرتے ہیں قلم کتنوں کے سر نوکِ قلم سے
ہم اہلِ قلم ہاتھ میں خنجر نہیں رکھتے
ساقی کی نگاہوں نے حفیظ ایسی پلا دی
ہم آرزوئے شیشہ و ساغر نہیں رکھتے
ہم ایسے تونگرہیں جو نوکر نہیں رکھتے
سرگرم سفر رہتے ہیں بستر نہیں رکھتے
کیا گھر کا پتہ دیں جو کوئی گھر نہیں رکھتے
لڑتے ہیں کڑی دھوپ سے دیوانے تمہارے
سر پر کوئی مانگی ہوئی چادر نہیں رکھتے
فطرت نے جو بخشا ہے وہی حُسن بہت ہے
پھول اپنے بدن پر کوئی زیور نہیں رکھتے
سچ بولتے ہیں اور ہر اک شخص کے منہ پر
آئینہ صفت لوگ کوئی ڈر نہیں رکھتے
کرتے ہیں قلم کتنوں کے سر نوکِ قلم سے
ہم اہلِ قلم ہاتھ میں خنجر نہیں رکھتے
ساقی کی نگاہوں نے حفیظ ایسی پلا دی
ہم آرزوئے شیشہ و ساغر نہیں رکھتے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment