Saturday 6 February 2016

احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے

احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے
ہم ایسے تونگرہیں جو نوکر نہیں رکھتے
سرگرم سفر رہتے ہیں بستر نہیں رکھتے
کیا گھر کا پتہ دیں جو کوئی گھر نہیں رکھتے
لڑتے ہیں کڑی دھوپ سے دیوانے تمہارے
 سر پر کوئی مانگی ہوئی چادر نہیں رکھتے
فطرت نے جو بخشا ہے وہی حُسن بہت ہے
 پھول اپنے بدن پر کوئی زیور نہیں رکھتے
سچ بولتے ہیں اور ہر اک شخص کے منہ پر
آئینہ صفت لوگ کوئی ڈر نہیں رکھتے
کرتے ہیں قلم کتنوں کے سر نوکِ قلم سے
 ہم اہلِ قلم ہاتھ میں خنجر نہیں رکھتے
ساقی کی نگاہوں نے حفیظ ایسی پلا دی
 ہم آرزوئے شیشہ و ساغر نہیں رکھتے

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment