نہ جانے کیسی مِری جاں میں آگ جلتی ہے
کہ سانس لوں تو گریباں میں آگ جلتی ہے
دکھا رہا ہے مجھے کیوں کسی چراغ کی لَو
ابھی تو دِیدۂ حیراں میں آگ جلتی ہے
سنبھال رکھا ہے کیا کسی کا غم میں نے
قریب آنے لگے ہیں مِری رہائی کے دن
یہ دیکھ دیدۂ زنداں میں آگ جلتی ہے
ہمارے شہر کی حالت نہ پوچھیے صاحب
ہر ایک قلبِ پریشاں میں آگ جلتی ہے
پھسل رہاہے اندھیرا اِدھر اُدھر گوہرؔ
یہ کس کی چشمِ فروزاں میں آگ جلتی ہے
افضل گوہر
No comments:
Post a Comment