گلہ گزار نہ ہو، گر ہوا نہيں آتی
زميں ہر ايک جگہ زيرِ پا نہيں آتی
اگر زميں سے ہميں رزق مل نہيں سکتا
تو کيوں فلک سے ہماری غذا نہيں آتی
تجھے ميں بھیج تو سکتا ہوں دھوپ ميں چھاؤں
مجھے ستا کے وہ ميری دعائيں ليتا ہے
اسے پتہ ہے مجھے بددعا نہيں آتی
دبيز اتنی ہوئی مفلسی کی تاريکی
دِيا بجھا تو کہيں سے ضيأ نہيں آتی
اسے کہو کہ مِرے دل ميں آ کے رہ جائے
يہ وہ مکان ہے جس ميں بلا نہيں آتی
افضل گوہر
No comments:
Post a Comment