یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
جو آشنا تھا کبھی،۔ آج اجنبی سا لگا
وہ ایک سایہ جو بے حس تھا مردہ کی مانند
قریب آیا،۔ تو اک عکسِ زندگی سا لگا
خود اپنی لاش لیے پھر رہا تھا کاندھوں پر
وہ اک وجود، پالے ہوئے تھا سانپوں کو
نظر کی زد میں جو آیا تو بانسری سا لگا
تمام عمر جسے پیکِ دوستی سمجھا
ہوا جو تجربہ، وہ نقش دشمنی سا لگا
وہ ایک کربِ مسلسل، جو دل جلاتا تھا
تم آ کے پاس جو بیٹھے تو سرخوشی سا لگا
بظاہر ایک ہی چہرہ تھا سامنے، لیکن
کبھی کسی کا لگا، تو کبھی کسی کا لگا
صادق اندوری
No comments:
Post a Comment