Thursday 4 February 2016

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے 
جو میرے ساتھ چلے تھے، وہ ساتھ چھوڑ گئے
وہ آئینے, جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے 
وہ پھینکے وقت نے پتھر, کہ توڑ پھوڑ گئے
ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ
فلک سے آئے ملک اور گُنہ نچوڑ گئے
بپھرتی موجوں کو کشتی نے روند ڈالا ہے 
خوشا وہ عزم کہ طوفاں کا زور توڑ گئے 
رہے گی گونج ہماری توایک مدت تک 
ہمارے شعر کچھ ایسے نقوش چھوڑ گئے
ان آئے دن کے حوادث کو کیا کہوں صادقؔ
مِری طرف ہی ہواؤں کا رخ یہ موڑ گئے

صادق اندوری

No comments:

Post a Comment