دشمنی ميں کچھ نہ کچھ تکرار کر سکتا ہوں ميں
سامنے مت آ، کہ تجھ پہ وار کر سکتا ہوں ميں
يہ تو يونہی ايک دريا ميرے پیچھے آ گيا
ورنہ صحرا کو اکيلے پار کر سکتا ہوں ميں
کيوں دکھاتا ہے مجھے تُو دوسری دنيا کے خواب
گر يونہی بڑھتے رہے يہ شہر جنگل کی طرف
پھر کہيں آباد اپنی غار کر سکتا ہوں ميں
اور ہونگے جن کو حاجت ہے کسی ہتھيار کی
اپنے بازو کو ابھی تلوار کر سکتا ہوں ميں
سر پہ کيوں احسان لوں گوہرؔ کسی کی چھاؤں کا
دھوپ ميں جب خود کو سايہ دار کرسکتا ہوں ميں
افضل گوہر
No comments:
Post a Comment