Wednesday 3 February 2016

اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے

اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے
دنیا کی طلب یوں بھی خسارے سے جڑی ہے
اس بار کوئی اور تماشا ہے گلی میں
اک آنکھ جو کھڑکی کے اشارے سے جڑی ہے
میں اس لیے دنیا پر بھروسا نہیں کرتا
مٹی کی یہ دیوار بھی گارے سے جڑی ہے
یہ کشتیوں والے تو یونہی خوف زدہ ہیں
دریا کی تو ہر موج کنارے سے جڑی ہے
ہر در کسی سورج کے تعاقب میں ہے گوہرؔ
ہر رات کسی اور ستارے سے جڑی ہے

افضل گوہر

No comments:

Post a Comment