اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے
دنیا کی طلب یوں بھی خسارے سے جڑی ہے
اس بار کوئی اور تماشا ہے گلی میں
اک آنکھ جو کھڑکی کے اشارے سے جڑی ہے
میں اس لیے دنیا پر بھروسا نہیں کرتا
یہ کشتیوں والے تو یونہی خوف زدہ ہیں
دریا کی تو ہر موج کنارے سے جڑی ہے
ہر در کسی سورج کے تعاقب میں ہے گوہرؔ
ہر رات کسی اور ستارے سے جڑی ہے
افضل گوہر
No comments:
Post a Comment