Wednesday, 3 February 2016

اسی لیے تو بہت تلخ ہے زباں میری

اسی لیے تو بہت تلخ ہے زباں میری
کہ بات سنتا نہیں ہے تیرا جہاں میری
میں اپنے پاؤں پہ چلنا ہی بھول گیا ہوں
زمیں کھینچتا ہے جب سے آسماں میری
ذرا سا بات کا لہجہ بدل گیا ہے تو کیا
نئی نہیں ہے تیرے واسطے زباں میری
کبھی زمیں کی کشش سے نکل ہی جاؤں گا
ابھی پروں میں ہے اک آخری اڑان میری
تمام جسم گھٹن کا شکار ہے گوہرؔ
کبھی ہوا کی طرح آ کے سانس چھان میری

افضل گوہر

No comments:

Post a Comment