Wednesday, 3 February 2016

یوں پاس بوالہوس رہیں چشم غضب سے دور

 یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور​

یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور​

دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے​

باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور​

مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے​

اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور

​جو لطف میں بھی پاس پھٹکنے نہ دے کبھی​

رکھیو الٰہی! ایسے کے مجھ کو غضب سے دور​

کیونکر میں انجمن میں تمہاری شریک ہوں​

اربابِ رنج رہتے ہیں اہلِ طرب سے دور​

ہم سے اسے معاملہ تھا جان و جسم کا​

ہرگز ملا نہ گاہ، ہوا ہائے جب سے دور​

تُو بھی جو میرے پاس نہ آئے تو کیا کروں​

تیرے ہی پاس سے تو میں رہتا ہوں سب سے دور​

میں غیرِ بوالہوس نہیں ڈرتے ہو کس لئے​

مجھ کو نہ رکھو بوسے میں تم لب کو لب سے دور​

بوس و کنار کی نہ کروں گا ہوس کبھی​

یہ خواہشیں ہیں عاشقِ حسرت طلب سے دور​

آغازِ عمر ہی میں ہے ہم کو خیالِ حج​

دلی جو شیفتہ ہے دیارِ عرب سے دور​


مصطفیٰ خان شیفتہ

No comments:

Post a Comment