Wednesday, 3 February 2016

غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل

 غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل

مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل

کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل

رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل

جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دِلا

پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل

اس دوست کے لیے تِرے دشمن ہیں سینکڑوں

اے دل! ٹک اک پہر تو خبردار آج کل

یوسف کسی زمانے میں تھا خوبرُو ولے

تجھ سا نظر پڑے نہ طرحدار آج کل

ہم مفلسوں سے کیا کوئی دل کھول کر ملے

سب کے تئیں عزیز ہے زردار آج کل

کون اٹھ گیا ہے پاس سے کیا ہو گیا ہے جو

پڑتی نہیں ہے تجھ کو دلِ زار آج کل

وعدہ خلاف آ کے ملے گا بھی تُو کبھی

کب تک سنا کریں تِری ہر بار آج کل

کیا ذکر ماہ و سال کا بہہ جائے دل جگر

رونے سے تیرے دیدۂ خوں بار آج کل

افسوس ہے کہ ہم تو تڑپتے ہیں دام میں

اور کھِل رہا ہے کیا گل و گلزار آج کل

آنکھوں میں اشک، جان بہ لب، سینہ چاک ہے

جرأت!! کہیں ہوا ہے گرفتار آج کل


قلندر بخش جرأت

No comments:

Post a Comment