Wednesday, 3 February 2016

جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا

 جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا

خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا

کیوں نہ کہتے تھے دِلا! شیریں لبوں کے منہ نہ لگ

ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا

چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال

یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا

شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر

نامہ بر اپنا پرِ پروازِ بسمل ہوئے گا

یاں وفا و جور کا ہم تم نہ سمجھیں گے حساب

دفترِ محشر میں سب باقی و فاضل ہوئے گا

صبر ہو کوہِ گراں جس کا تو وہ عزمِ سفر

کر کے تجھ در سے سبک پہلی ہی منزل ہوئے گا

سہج میں دنیا تو ہم چھوڑیں گے لیکن زاہدا

چھوڑنا تیری طرح داڑھی کا مشکل ہوئے گا

کر ہے گوشِ فہم عالم ورنہ کہتی ہے بہار

جو گُل آیا اس چمن میں ایک دل گُل ہوئے گا

زیادہ اس شب سے نہیں بے قدر حیرانی مری

آئینہ تو صبح دم تیرے مقابل ہوئے گا

تجھ پہ گر خونِ دو عالم کا ہو دعویٰ بے گواہ

بول اٹھے قاضی نہیں دعویٰ یہ باطل ہوئے گا

(ق)

شیخ کو لائے تھے سودا اس لیے ہم یار پاس

طبع کو اس کے تفنّن اس سے حاصل ہوئے گا

سو وہ اب ہم چشم ٹھہرا ہے ہمارا یا نصیب

تھا لکھا اپنا کہ ہم میں وہ بھی شامل ہوئے گا

ہم تو وہ سمجھے تھے دل میں پر خبر اس کی نہ تھی

یہ لگا لوہو شہیدوں بیچ داخل ہوئے گا


مرزا رفیع سودا

No comments:

Post a Comment