تنہائی بھی عذاب ہے محفل بھی دوستو
آرام کی نہیں کوئی منزل بھی دوستو
موجِ بلا سے بچ کے کہاں جا رہے ہو تم
موجِ بلا کی زد میں ہے ساحل بھی دوستو
کیا جانے کتنی بار لٹا،۔ اور پھر بسا
فصلِ بہار اب کے عجب گل کھلا گئی
روئے ہے اشکِ خوں مِرا قاتل بھی دوستو
کب تک کسی کی زلف سنوارا کریں گے ہم
ہیں زندگی میں اور مسائل بھی دوستو
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment