Friday 5 February 2016

چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی

چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی
دیدار کی ہمیں بھی ضرورت نہیں رہی
یوں ہی نہیں ہے جھوٹ کا بازار اتنا گرم
سچ بولنے کی ہم میں بھی جرأت نہیں رہی
بستی وہی ہے گھر بھی شریفوں کا ہے وہی
لیکن کسی بھی گھر میں شرافت نہیں رہی
کیا بات ہے کہ بچے بھی سنجیدہ ہو گئے
ان میں وہ شوخیاں، وہ  شرارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ تم نے بھی مجھ کو بھلا دیا
اب مجھ کو دوسروں سے شکایت نہیں رہی
سمجھوتہ کر لو تلخیٔ حالات سے حفیظؔ
جینے کی اور اب کوئی صورت نہیں رہی

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment