چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی
دیدار کی ہمیں بھی ضرورت نہیں رہی
یوں ہی نہیں ہے جھوٹ کا بازار اتنا گرم
سچ بولنے کی ہم میں بھی جرأت نہیں رہی
بستی وہی ہے گھر بھی شریفوں کا ہے وہی
کیا بات ہے کہ بچے بھی سنجیدہ ہو گئے
ان میں وہ شوخیاں، وہ شرارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ تم نے بھی مجھ کو بھلا دیا
اب مجھ کو دوسروں سے شکایت نہیں رہی
سمجھوتہ کر لو تلخیٔ حالات سے حفیظؔ
جینے کی اور اب کوئی صورت نہیں رہی
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment