Monday 1 February 2016

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے 
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے
یادوں کے سیلاب میں جس دم گھِر جاتا ہوں 
دل دیوار ادھر جانے کی خواہش ہوتی ہے
خواب دیکھنے کی حسرت میں تنہائی میری
آنکھوں کی بنجر دھرتی میں نیندیں بوتی ہے
خود کو تسلی دینا کتنا مشکل ہوتا ہے
کوئی قیمتی چیز اچانک جب بھی کھوتی ہے
عمر سفر جاری ہے بس یہ کھیل دیکھنے کو
روح بدن کا بوجھ کہاں تک کب تک ڈھوتی ہے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment