Monday 1 February 2016

پھر لہو بول رہا ہے دل میں

پھر لہو بول رہا ہے دل میں
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں
تاب لائیں گے نہ سننے والے
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں
ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گلچیں
آج وہ پھول کھلا ہے دل میں
دشت بھی دیکھے چمن بھی دیکھا
کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں
رنج بھی دیکھے خوشی بھی دیکھی
آج کچھ درد نیا ہے دل میں
چشمِ تر ہی نہیں محوِ تسبیح
خوں بھی سرگرمِ دعا ہے دل میں
پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی
کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں
پھر کسی غم نے پکارا شاید
کچھ اجالا سا ہوا ہے دل میں
کہیں چہرے کہیں‌ آنکھیں کہیں ہونٹ
اک صنم خانہ کھلا ہے دل میں
اسے ڈھونڈا وہ کہیں بھی نہ ملا
وہ کہیں بھی نہیں یا ہے دل میں
کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر
دوستو! شہر بسا ہے دل میں
کوئی دیکھے تو دکھاؤں ناصرؔ
وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment