Monday 1 February 2016

دل میں اور تو کیا رکھا ہے

دل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دِیپ جلا رکھا ہے
دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دکھ کا نام دوا رکھا ہے
وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment