پھول کی طرح برستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
یا مِرے حال پہ ہنستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
کچھ تو احساس انہیں اپنی ملاقات کا ہے
ہم پہ آواز تو کستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
میں بھٹکتا ہوں تِرے شہر کی ان سڑکوں پر
جب زباں چلتی ہے، نشتر کا گماں ہوتا ہے
بات کرتے ہیں کہ ڈستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
تیرا پیکر ہے کہ خواہش کا ابھرتا سورج
دھوپ میں جس کی جھلستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
میں تو خیر ایک مسافر ہوں، مِرا ذکر ہی کیا
تیری صورت کو ترستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
اجنبی آج بھی لگتا ہے تُو اِن کو شاہدؔ
کیسے بھولے ہوئے رستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment