یہ جو اِک سَیلِ فنا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
میرے ہونے کی سزا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
آگے آگے ہے، مِرے دِل کے چٹَخنے کی صدا
اور مِری گَردِ اَنا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
زندگی تھک کے کسی موڑ پہ رُکتی ہی نہیں
اپنا سایہ تو میں دریا میں بہا آیا تھا
کون پھر بھاگ رہا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
پانو پر پانو وہ رکھتا ہی چلا جاتا ہے
میرا نقشِ کفِ پا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
چھوڑتا ہی نہیں تنہا مجھے، معبود مِرا
یہ مِری ماں کی دُعا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
میں تو دوڑا ہوں خود اپنے ہی تعاقُب میں فریدؔ
چاند کیوں بھاگ رہا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
احمد فرید
No comments:
Post a Comment